اسی انداز پرحضرتؑ کاایک یہ کلام ہے لوگوں میں سے ایک وہ ہے جو برائی کو ہاتھ ‘زبان او ر دل سے برا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نے اچھی خصلتوں کو پورے طور پر حاصل کر لیا ہے اور ایک وہ ہے جو زبان اور دل سے براسمجھتا ہے لیکن ہاتھ سے اسے نہیں مٹاتا تو اس نے اچھی خصلتوں میں سے دوخصلتوں سے ربط رکھا اور ایک خصلت کو رائیگا ں کر دیا اور ایک وہ ہے جو دل سے بر ا سمجھتا ہے لیکن اسے مٹانے کے لیے ہاتھ اور زبان کسی سے کام نہیں لیتا اس نے تین خصلتوں میں سے دوعمدہ خصلتوں کو ضائع کردیا ‘اور صرف ایک سے وابستہ رہا اور ایک وہ ہے جو نہ زبان سے ‘نہ ہاتھ سے اور نہ دل سے برائی کی روک تھا م کرتا ہے ‘یہ زندوں میں (چلتی پھرتی ہوئی )لاش ہے۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمام اعمال خیر اور جہاد فی سبیل اللہ ‘امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسے ہیں ‘جیسے گہرے دریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں یہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے موت قبل از وقت آجائے ‘یا رزق معین میں کمی ہوجائے اور ان سب سے بہتر وہ حق بات ہے جو کسی جابر حکمرا ن کے سامنے کہی جائے۔