عہد ماضی میں میر اایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیااس کی نظروں میں پست و حقیر تھی۔اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔لہٰذا جوچیزاسے میسر نہ تھی اس کی خواہش نہ کرتا تھا اور جو چیز میسر تھی اسے ضرورت سے زیادہ صرف میں نہ لاتاتھا۔وہ اکثر اوقات خاموش رہتاتھا اور اگر بولتا تھا تو بولنے والوں کو چپ کرادیتا تھا اور سوال کرنے والوں کی پیاس بجھا دیتا تھا۔یوں تو وہ عاجز و کمزور تھا ‘مگر جہاد کا موقع آجائے تو وہ شیر بیشہ اور وادی کا اثردھاتھا وہ جو دلیل و برہان پیش کرتا تھا۔وہ فیصلہ کن ہوتی تھی۔وہ ان چیزوں میں کہ جن میں عذر کی گنجائش ہوتی تھی ‘کسی کو سرزنش نہ کرتا تھا جب تک کہ اس کے عذر معذرت کو سن نہ لے وہ کسی تکلیف کا ذکر نہ کرتا تھا ‘مگر اس وقت کہ جب اس سے چھٹکار اپالیتا تھا ‘وہ جو کرتا تھا ‘وہی کہتا تھا اور جونہیں کرتا تھا وہ اسے کہتا نہیں تھا۔اگر بولنے میں اس پر کبھی غلبہ پابھی لیا جائے تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا اور جب اچانک اس کے سامنے دوچیزیں آجاتی تھیں تو دیکھتا تھا کہ ان دونوں میں سے ہوائے نفس کے زیادہ قریب کون ہے تو وہ اس کی مخالفت کرتا تھا۔لہٰذا تمہیں ان عادات و خصائل کو حاصل کرنا چاہیے اور ان پر عمل پیرا اور ان کا خواہشمند رہنا چاہیے اگر ان تما م کا حاصل کرنا تمہاری قدرت سے باہر ہو تو اس بات کو جانے رہو کہ تھوڑی سی چیز حاصل کر نا پور ے کے چھوڑ دینے سے بہتر ہے۔
حضرت ؑنے اس کلام میں جس شخص کو بھائی کے لفظ سے یاد کرتے ہوئے اس کے عادات وشمائل کا تذکرہ کیا ہے اس سے بعض نے حضرت ابو ذر غفار ی ‘بعض نے عثمان ابن مظعون اور بعض نے مقداد ابن اسود کو مراد لیا ہے مگر بعید نہیں کہ اس سے کوئی فر د خاص مراد نہ ہو کیونکہ عرب کا یہ عام طریقہ کلام ہے کہ وہ اپنے کلام میں اپنے بھائی یا ساتھی کا ذکر کرجاتے تھے ‘اور کوئی معین شخص ان کے پیش نظر نہیں ہوتا تھا۔