Nahjul Balagha Kalma 317 - Mujarab Duas from Quran and Hadith

Breaking

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Tuesday, April 5, 2016

Nahjul Balagha Kalma 317

ایک یہودی نے آپؑ سے کہا کہ ابھی تم لوگوں نے اپنے نبی کودفن نہیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں اختلاف شروع کردیا۔حضرتؑ نے فرمایا ہم نے ان کے بارے میں اختلا ف نہیں کیا۔بلکہ ان کے بعد جانشینی کے سلسلہ میں اختلاف ہوا مگر تم تو وہ ہوکہ ابھی دریائے نیل سے نکل کر تمہارے پیر خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نبی سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسا خدا بنا دیجئے جیسے ان لوگوں کے خدا ہیں۔توموسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ بیشک تم ایک جاہل قوم ہو۔

اس یہودی کی نکتہ چینی کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف کو پیش کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو ایک اختلافی امر ثابت کرلے ‘مگر حضرتؑ نے یہ لفظ فیہ کے بجائے لفظ عنہ فرماکر اختلاف کا موردواضح کر دیا کہ وہ اختلاف رسول کی نبو ت کے بارے میں نہ تھا بلکہ ان کی نیابت و جانشینی کے سلسلہ میں تھا۔اور پھر یہودیوں کی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جوآج پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے باہمی اختلاف پر نقدکر رہے ہیں خود ان کی حالت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں عقیدہ توحید میں متزلزل ہوگئے تھے چنانچہ جب وہ اہل مصر کی غلامی سے چھٹکار ا پاکر دریا کے پار اتر ے تو سینا کے بت خانہ میں بچھڑے کی ایک مورتی دیکھ کر حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی ایک ایسی مورتی بنا دیجئے۔جس پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ تم اب بھی ویسے ہی جاہل ہو’جیسے مصر میں تھے تو جس قوم میں توحید کی تعلیم پانے کے بعد بھی بت پرستی کا جذبہ اتنا ہو کہ وہ ایک بت کو دیکھ کر تڑپنے لگے اور یہ چاہے کہ اس کے لیے بھی ایک بت خانہ بنا دیا جائے اس کو مسلمانوں کے کسی اختلاف پر تبصرہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔

sponsors

Post Top Ad

Responsive Ads Here