Nahjul Balagha Kalma 311 - Mujarab Duas from Quran and Hadith

Breaking

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Post Top Ad

Responsive Ads Here

Tuesday, March 29, 2016

Nahjul Balagha Kalma 311

311 جب حضرت ؑ بصرہ میں وارد ہوئے تو انس بن مالک کو طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا تھا کہ ان دونوں کو کچھ وہ اقوال یاد دلائیں جو آپ علیہ السّلام کے بارے میں انہوں نے خود پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنے ہیں۔مگر انہوں نے اس سے پہلوتہی کی اور جب پلٹ کر آئے تو کہا کہ وہ بات مجھے یاد نہیں رہی اس پر حضرتؑ نے فرمایا اگر تم جھو ٹ بول رہے ہو تو اس کی پاداش میں خداوند عالم ایسے چمکدار داغ میں تمہیں مبتلا کرےکہ جسے دستا ر بھی نہ چھپا سکے۔

(سید رضیؒ فرماتے ہیں کہ)سفید داغ سے مراد برص ہے چنانچہ انس مر ض میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیشہ نقاب پوش دکھائی دیتے تھے۔

علامہ رضیؒ نے اس کلام کے جس مورد و عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرتؑ نے جنگ جمل کے موقع پر انس ابن مالک کو طلحہ وزبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں پیغمبر کا قول انکما استقاتلان علیا و انتھالہ ظالمان (تم عنقریب علی علیہ السّلام سے جنگ کر و گے اور تم ان کے حق میں ظلم و زیادتی کرنے والے ہوگے )یاد دلائیں ‘تو انہوں نے پلٹ کر یہ ظاہر کیا کہ وہ اس کا تذکرہ بھو ل گئے تو حضرت نے ان کے لیے یہ کلمات کہے۔مگر مشہور یہ ہے کہ حضرت نے یہ جملہ اس موقع پر فرمایا جب آپؑ پیغمبرکے اس ارشاد کی تصدیق چاہی کہ:

جس کا میں ؐمولا ہوں اس کے علی ؑبھی مولا ہیں۔اے اللہ جو علؑی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیںؑ دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ۔

چنانچہ متعدد لوگو ں نے اس کی گواہی دی۔مگر انس بن مالک خاموش رہے جس پر حضرتؑ نے ان سے فرمایا کہ تم بھی تو غدیر خم کے موقع پر موجود تھے پھر اس خاموشی کی کیا وجہ ہے ؟انہوں نے کہا یا امیرالمومنین علیہ السّلام میں بوڑھا ہوچکا ہوں اب میری یاد داشت کا م نہیں کرتی جس پر حضرت ؑنے ان کے لیے بددعا فرمائی۔چنانچہ ابن قیتبہ تحریر کرتے ہیں کہ۔

لوگوں نے بیان کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السّلام نے انس ابن مالک سے رسول اللہ کے ارشاد اے اللہ جو علؑی کو دوست رکھے تو بھی اسے دوست رکھ اور جو انہیںؑ دشمن رکھے تو بھی اسے دشمن رکھ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور اسے بھول چکا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو خدا تمہیں ایسے بر ص میں مبتلا کرے جسے عمامہ بھی نہ چھپا سکے۔

ابن ابی الحدید نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے اور سید رضیؒ کے تحریر کردہ واقعہ کی تردید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ

سید رضیؒ نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے حضرت نے انس کو طلحہ و زبیر کی طرف روانہ کیا تھا ایک غیر معروف واقعہ ہے اگر حضرتؑ نے اس کلا م کی یاد دہانی کے لیے انہیں بھیجا ہوتا کہ جو پیغمبرؐ نے ان دونوں کے بارے میں فرمایا تھا تو یہ بعید ہے کہ وہ پلٹ کر یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا۔کیونکہ جب وہ حضرت ؑسے الگ ہوکر روانہ ہوئے تھے تو اس وقت یہ اقرار کیاتھا کہ پیغمبرؐ کا یہ ارشاد میرے علم میں ہے اور مجھے یاد ہے پھر کس طرح یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک گھڑی یا ایک دن کے بعد یہ کہیں کہ میں بھول گیا تھا اور اقرار کے بعد انکا ر کریں۔یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔

sponsors

Post Top Ad

Responsive Ads Here